Thursday, 8 August 2013

شام میں محاذ آرائی۔۔ایک احمقانہ سوچ !

حافظ محمد عثمان
البرائٹ 1999ء میں امریکی صدر بن کلنٹن کی سیکریڑی آف سٹیٹ تھیں۔ ان دنوں امریکہ نے شمالی یورپ میں کوسوا کے مقام پر محاذ آرائی شروع کر رکھی تھی۔البرائٹ اس وقت صدر کے خاص کارندوں میں شامل تھیں۔ جو کوسوا میں براہ راست فوجی مداخلت کی حامی اور اس آپریشن کا اہم حصہ تھیں۔اس آپریشن میں اہم بات یہ تھی کہ یہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ہواکیونکہ اس وقت امریکہ کو سیکوڑٹی فورسز کی مخالفت کا خدشہ لاحق تھا لہذا اس نے یہ آپریشن اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیرہی شروع کر دیا۔ یہ امریکی جارحیت کا محاذ بغیر کسی نتیجہ کے چار ماہ تک جاری رہا پھر دونوں طرف فتح کااعلان کر دیا گیا۔ جس کی پوری دنیا میں شدید مزمت کی گئی ۔
کیا امریکہ شام میں ایک نئے محاذ کی تلاش میں ہے؟ آج اس سوال پر پوری دنیا کے سیاسی اور سماجی ماہرین کی نظریں مزکور ہیں۔ جو اس کے پیچھے کی سازش اور اصل معمہ کو سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ بظاہر تو امریکہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو جواز بنا کر شام کی سرزمین پر بربریت و خونریزی کی نئی داستان رقم کرناچاہتا ہے ۔یہ ایک ایسی بے معنی سی بات سے جس کے لیے وہ مسلسل اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے تگ و دو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں جب پوری دنیاامن کے لیے کوشاں ہے۔ایک نئے محاذ کا ذکرسب کے لیے ناگوار ہے اور پوری دنیا اس پر شدید مخالفت اورسخت ردعمل کااظہارکر رہی ہے ۔ نہ صرف امریکہ میں بلکہ اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے بھی شدید لعن طعن دیکھنے میں آ رہا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ میں چین اور روس نے ویٹو استعمال کر کے پہلے ہی اس حملے کی شدید مزمت کی ہے۔
دیکھا جائے یہ امریکی جارحیت کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ۔ اس سے پہلے بھی یہ عالمی امن کا علم بردار کوسوا ، عراق، افغانستان ، لیبیا اور بلاواسطہ پاکستان میں بھی اپنے جارحانہ انداز سے بہت سی معصوم جانوں کا قتل عام کر چکا ہے۔جس میں اس نے ظلم و ستم کے ایسے بازار گرم کیے جس نے گھروں کے گھر اجاڑ دیے۔ لسانیت و فرقہ واریت کی ایسی آگ لگائی کہ اس کے شعلہ دور دور تک پھیلنے لگے ۔ جس سے دیکھتے ہی دیکھتے پورا وسطی ایشیاء اسی آگ کی لپیٹ میں جلنے لگا۔ جس میں ایران ، عراق، پھر افغانستان اور تو اور پاکستان بھی اس آگ سے نہ بچ سکا جو ابھی تک اپنے بقاء کے لیے لڑ رہا ہے۔
گزشتہ برسوں سے امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے مسلم ممالک پر جارحانہ ظلم و ستم اس کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔اس کے بعد امریکہ میں وراثتی جنگ رواج پکڑنا شروع ہو گئی۔ صدر بش نے اقتدار سنبھالتے ہی پے در پے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ کر ڈالاجس کے سنگین نتائج پوری دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ پھر یہ دونوں جنگیں صدر ابامہ کے حصہ میں آئیں۔ عراق سے تو امریکی فوجوں کو انخلاء تو ماضی قریب میں ہوچکا ہے جبکہ افغانستان سے اگلے سال کے آخر تک متوقع ہے۔
صدر ابامہ اب شام میں نئی محاذ آرائی کر کے اس خونی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔مگر اب امریکہ کی شام پر حملہ کی یہ سوچ پوری دنیا میں نئی مخالفت کو جنم دے گئی جو مسلم امہ کے خلاف ایک نئی سازش کا حصہ ہو سکتی ہے جس سے پوری امت مسلمہ کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو نے کو خطرہ ہے۔ ایک وہ جو شام پر حملے کی کھلے عام تائید کر رہے ہیں۔ جن میں ترکی اور سعودی عرب شامل ہیں اور جو امریکی ملی بھگت سے شامی باغیوں کی پشت پناہی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسرا وہ ممالک جو اس حملے کی کھلے عام مخالفت کر رہے ہیں جن میں ایران ، لبنان، شام، اردن ، عراق، مصر شامل ہیں یہ مسلم ممالک ہیں جبکہ چین اور روس بھی اس حملہ کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
اس حملہ کو دنیا محتلف پہلوں سے دیکھ رہی ہے۔ ناقدین پوری دنیا سے اس سنگین صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اور اس کے پیش نظر پیدا ہونے والے خطرات سے امریکہ کو آگاہ کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف امریکی عسکری قیادت سے چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن نے بھی بار بار امریکہ عوام اور کانگرس کو عندیہ دیا ہے کہ شام پر براہ راست حملہ نہ صرف خطہ کو غیر مستحکم کرے گا بلکہ امریکہ کے خلاف مزید دہشت گردی کا باعث بھی بنے گا۔جبکہ بعض سیاسی اور صاحب نظر مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ کچھ ایسے جنگ پسند عناصر کی موجودگی ہے جو کسی خاص نظریہ کے حامل اسرائیل لابی کے مفادات کی خاطر شام میں فوجی مداخلت کی حمایت چاہتے ہیں۔ 
تقریبا تیرہ سال بعد آج امریکہ کی جانب سے وہی عمل دہرایا جا رہا ہے ۔ صدر ابامہ کے سیکٹری آف سٹیٹ رائس ہیں۔ جو البرائٹ کی پیروی کرتے ہوئے صدر کو شام میں فوجی مداخلت اور جارحیت پر اکسا رہے ہیں اور اس آپریشن کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ جس کے پیش نظر شام پر حملے کی قراداد وائٹ ہاؤس میں منظوری کے لیے پیش کی گئی ہے۔کوسوا کا یہ آپریشن موجودہ در پیش صورت حال کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔نتیجہ کوئی بھی یہ بات تو مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اس نئے محاذ سے کئی اور محاذ جنم لیں گے جس سے خطے کے امن کو بری طرح دھچکا لگے گا۔یہ جنگ محض معصوم جانوں کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔جو عراق ، افغانستان کی یاد دوبارہ تازہ کرے گی۔ صدر ابامہ امن میں نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے گی اور کوئی اور امن کی راہ تلاش کرنا ہو گی۔میرے خیال میں انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...