Friday 10 October 2014

یہ واءرس کیسے نکلے گا۔۔۔ Ye Virus Kesay Niklay Ga


Monthly Pilot Aina August 2014

Sunday 17 August 2014

موجودہ بحران Maojooda Bohran

مشرق کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں جمہوریت ایسے ہی دھرنوں اور سیاست انتشار ہی سے مضبوط ہوءی۔ آپ ملاءیشا ، انڈونیشیا ، کوریا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سب میں مارشلاز اور تحریکوں کے بعدہی جمہوریت آءی ہے۔ مگر ہم اس معاملے میں خاصے پیچھے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی شعور بہت کم ہے۔ ہم عوامی مساءل پر سیاست نہیں کرتے بلکہ ہمارے ہاں سیاست کسی ہم پلہ سیاست دان کو نیچا دیکھا کر نمبر بنانے کا نام ہے۔عمران خان کو مقبول ہونے کے لیے نوازشریف ، شہباز شریف اور آصف زرداری کو برا بھلا کہنا ضروری ہے اور اسی طرح نواز ، شہباز ، آصف زرداری بھی ایک دوسرے پر لعن طعن کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جونک کر ایوانوں تک آتے ہیں۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔میری راے میں عمران اور طاہر القادری کے مطالبات جمہوریت کے مستقبل اور موجودہ سیاست پر مثبت اثرات مرتب کرسکتے اگر دونوں فریقین {حکومت اور لانگ مارچ کے حامی} فہم و فراست سے کام لیں۔۔ 
__________________از حافظ محمد عثمان______________

Tuesday 11 February 2014

’کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں‘

حافظ محمد عثمان
ایک محبوب دوست جناب فیضان عارف صاحب نے فرمائش کی کہ اقبالؒ کے اس مصرعہ کی وضاحت پیش کر دیں۔’کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں‘۔ ویسے مجھے ان کی یہ بات پسند آئی کہ انسان کی فکری و ادبی صلاحیتوں کو پرکھنے کا یہ اچھا طریقہ ہے کہ اس شخص سے کسی شعر کی تشریح پوچھ لی جائے، ویسے بھی شعر اگر اقبال کا ہو تو چند لمحوں میں اس کی ہوا نکل جائے گی۔ معروف شاعر واصف علی واصفؒ نے سے کسی نے کلام اقبالؒ کے بارے میں دریافت کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ ’اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے آپ کو قلندر ہونا پڑتا‘۔جبکہ مجھ جیسا کم علم کم فہم شخص اقبالؒ کے تخیل کی کیا بیانی کر سکتا ہے کہ جس نے خود اپنے بارے میں کہہ رکھا ہو ’ اقبالؒ بھی اقبالؒ سے آگاہ نہیں ہے‘۔ یعنی اس بحر بیکراں کی تشریح کے کہاں ہم لائق اور کہاں ہم قابل؟ 
موصوف کا دل رکھنے اور ان کی آرزو پوری کرنے کے لیے چند سطریں پیش کرنا چاہوں گا۔ تذکرہ اقبالؒ کا ہے ، ارباب نظر حضرات سے گزارش ہے کہ کوتاہیوں کی اصلاح فرمائیے گا۔
میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ۔ ’کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں۔‘ یہ علامہ اقبالؒ کی معروف نظم شکوہ کا پہلا مصرعہ ہے جس میں اقبال کی دو باتیں بہت واضح ہیں اوردونوں کا تعلق بلا واسطہ انسان کی خصلتوں سے ہے۔ اور یہاں پہلے کا وجود دوسرے سے مشروط ہے ۔یعنی سود فراموشی ہی زیاں کاری کا باعث ہے۔لفظی معنی دیکھے جائیں تو ’زیاں کار‘ نقصان پہنچانے والے کو کہتے ہیں جبکہ’ سود فراموش ‘ فائدہ کا علم رکھتے ہوے بھولنے والا کو کہا جاتا ہے۔ یہاں میں اس کے اصطلاحی معنی کچھ یوں بیان کروں گا کہ ایک اندھا شخص بغیر لاٹھی کے کہیں جا رہا ہو اور آگے اس کے راستے میں گہرا کنواں آ جائے اور ایک بینا شخص جانتے ہوئے بھی اس کی راہنمائی نہ کرے اور خاموشی سے دیکھتا رہے۔میری نظر میں یہی سود فراموشی ہے اور یہی زیاں کاری بھی۔اب اقبال ؒ کی بات کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ وہ کونسی چیز تھی جس سے اقبالؒ سود فراموشی نہیں چاہتے تھے؟ تو میں یہی کہوں گا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں۔جسکی عکاسی اقبالؒ کچھ یوں کرتے ہیں۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے ناقص ہے کتاب
کہ سیکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
مسلمان غلامی کو اپنا مقدر ٹھہرا چکے تھے۔ مایوسی کے گہرے بادل ان پر ٹھہر چکے تھے۔ ان کی سوچ پست تر ہو کر رہ گئی تھی۔ ایسی حالات میں اقبالؒ جیسا محسن مسلمانوں کے لیے راہبر ثابت ہواجس نے انہیں خوداری کا راستہ دیا۔ 
اقبا لؒ بھی اس عقیدہ پر عمل پیرا تھے کہ جس کی قرآن نے تلقین کی ’’ حق بات مت چھپاؤ‘‘۔ اور حقیقت میں صاحبان حق کا بھی تو یہی طریقہ رہا کہ وہ اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حق بات کی تبلیغ کے لیے مصروف عمل رہے۔ کیونکہ حق بات ہی تو انسان کو گمراہی کے اندھیروں سے دور کرتی ہے اور گمراہی اسی اندھے انسان کی مانند ہے جو آخر کا ر اسے انجام تک پہنچا دیتی ہے ۔اقبال بھی انہیں خاص لوگوں میں سے تھے۔ شکوہ کے مذکورہ مصرعہ میںیہ بات واضح ہے کہ اقبالؒ امت مسلمہ کے لیے گوہر نایاب رکھتے تھے جس سے وہ ہرگزچشم پوشی نہیں چاہتے تھے ۔ جس کو چھپانے سے وہ اعراض کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور جس کے ثمرات وہ امت مسلمہ پر آشکار کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس کا ذکر بارہا کر اپنے کلام میں کر چکے ہیں یعنی ’’ دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ‘‘۔ اور اقبال نے کیا دیکھا؟ اپنے دل کی منظر کشی کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ۔ 
مجھے راز دوعالم دل کا آ ئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
میری نظر میں اقبالؒ نے شکوہ خاکم بدہن حقیقتا امت مسلمہ کی حالت زار پر کیا، ان کی تنقید برائے اصلاح تھی جس کا مقصدقوم کی بیداری تھا وہ قوم جو خواب غفلت میں سو رہی تھی۔ جس کا بر ملا اظہار آپ نے جواب شکوہ میں کیا جیسا کہ
تھے تو آبا ء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟۔۔۔۔
اقبالؒ کا کلام جس کے بارے میں وہ اللہ سے التجاء کرتے ہیں کہ ’’ اے اللہ اگر میں نے قرآن و سنت کے علاوہ کچھ کہا تو روز محشر مجھے رسواء کر دینا‘‘( یہ بات کوئی اقبال جیسا مومن ہی کہہ سکتا ہے) وہ کیسے حق سے جدا ہو سکتا؟۔وہ اپنے اندر ایک حسرت رکھتے تھے وہ ہمارے تابناک ماضی سے ہمارا موازنہ کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں میں آج بھی’ حیدری فقر‘ ،’ دل مرتضی‘ اور’ سوز صدیق‘ جیسی پاکیزہ صفات پیدا ہو سکیں ، ہمارا رشتہ ہمارے اسلاف سے قائم ہو سکے۔ان کی تعلیمات کا ماخذ قرآن اور سنت رسول ﷺ تھا یہی وہ زندہ تعلیمات ہیں جسے انہوں نے اپنا نور بصیرت قرار دیا۔
خدایا آرزو مری یہی ہے
مرا نورِ بصیرے عام کر دے 
میں نے اقبالؒ کا ذکر یہاں اس بھی زیادہ کیا کہ یہ باعث برکت بھی ہے اور ویسے بھی یہ مصرعہ اقبالؒ کے کل کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ میں نے شروع میں لکھا کہ اس میں انسان کی خصلتوں کا ذکر ہے۔ جو اقبالؒ کے ہاں منفی صفات بھی ہیں۔یہ بنیادی خصائل ہیں جو ہمارے ہاں بہت کثیر ہیں یعنی ہم اکثر کسی کی اصلاح کے معاملہ سے گزیز کرتے ہیں اور اسے در خور کرتے ہیں ۔ اگر ایک انسان شروع ہی میں ان پر قابو پا لے تو آگے منزل آ سان ہو جاتی ہے ۔ یہاں اقبالؒ اپنے نفس کے خلاف برملا اعلان جہاد کا عندیہ دیتے دکھائی دے رہے ہیں یعنی کیوں زیاں کار بنوں؟ کیوں سود فراموش رہوں؟ جس پر وہ ثابت قدم بھی رہے۔ یعنی حقیقت میں وہ اپنے اندر ان صفات کی موجودگی کی نفی کر رہے ہیں کہ ان کے ہاں سود فراموشی معیوب تر ہے اور اسی لیے انہوں نے حق گوئی و بے باکی کا راستہ اختیار کیااور انہوں نے حق اور باطل میں ایک واضح فرق رکھا۔ جسکی بات وہ اس شعر میں کرتے ہیں۔
اپنے بھی خفاء مجھ سے بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی ، کہہ نہ سکا قند
میرا خیال ہے کہ اسی پر اکتفا ء کرتا ہوں کہ بات اتنی ہی اچھی جتنی دل میں اتر جائے۔ مزید اس کی جتنی بھی وضاحت کی جائے کم ہے کہ یہ اپنے اندر ایک ہمہ گیر فلسفہ رکھتا ہے کہ ہر اچھائی کے پیچھے یہی فلسفہ ہے۔ اور اچھائی باہم محبت و امن ہی کی علامت ہے ۔ جو بھائی چارے کی بات کرتی ہے ۔ اقبالؒ کی ساری شاعری بھی اس مصرعہ ہی کی ذیلی تشریح ہے اور یہی ان کے شاعری کے مقصد کو بھی واضح کرتا ہے ۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے وہ تمام پیغام پہنچا دیا جو انسان کی تربیت و راہنمائی کے لیے سود مند ثابت ہوا جسے وہ اگر نہ کہتے تو شاید وہ اپنی نظر میں سود فراموش اور زیاں کار ٹھہرتے۔اللہ اقبالؒ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
پورا شعر ملاحظہ فرمایے
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کرو ں محو غم دوش رہوں

Friday 3 January 2014

Sarkari Taleemi Adaron ki Saakh ko Khatra سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ کو خطرہ۔۔ !

ملک میں نظام تعلیم بری طرح متاثر ہوتاچلا جا رہا ہے، جس کی بظاہر تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں یکساں تعلیمی نصاب کی عدم موجودگی، موجودہ نصاب کی اپ گریڈیشن کا مسئلہ، انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی غفلت ،طلبہ و اساتذہ کی یونین سازی، جس کی سرگرمیوں سے بھی طلبہ و طالبات قدرے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور پھر مجموعی طور پر ہمارے تعلیمی اداروں کی لا پرواہی و ناقص کارکردگی اس کی زبوں حالی کا باعث ہیں، جس نے تعلیم کے حصول کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ مشکل اس لئے کہ سرکاری تعلیمی ادارے غریب لوگوں کے لئے ماﺅں کی مانند ہوتے ہیں جو ہر مشکل سے مشکل حالات میں انہیں ممکنہ معیاری اور سستی تعلیم کی فراہمی کے لئے میسر ہوتے ہیں، جہاں غریب کا بچہ اپنا پیٹ چھپا کر دوسروں کے شانہ بشانہ اس تعلیمی دوڑ میں حصہ لیتا ہے، مگر سرکاری تعلیمی اداروں کی بدانتظامی اور نجی اداروں کی شاطرانہ چال بازی کے باعث یہ نظام بد حالی کا شکار ہوتا جارہا ہے، جس کے باعث طلبہ و طالبات کو شدید مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔
 ویسے تو نجی تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم غریب کی پہنچ سے کوسوں دور ہے اور کسی خواب سے کم نہیں، جس کے لئے یہ بیچارے سرکاری اداروں کا رخ کرتے ہیں،مگر جہاں مذکورہ بالامشکلات کے باعث طلبہ و طالبات کو تعلیم کے حصول کے لئے نجی اداروں یا نجی اکیڈمیز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جو ان کے لئے وقت کا ضیاع اورمجوزہ سسٹم کے لئے باعث تشویش ہے ۔ میں یہاں نصابی مسائل کے تذکرہ سے گریز کر رہا ہوں ۔
میرا یہاں مقصدعوام کو سرکاری تعلیمی اداروں سے بدظن کرنا نہیں کہ اس کالم کو پڑھنے کے بعد آپ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ ان مسائل کی طرف حکومت کی توجہ دلانا ہے، جن پر اگر حکومتی نظر التفات پڑ جائے تو ان مسائل کا حل ناممکن نہیں ۔پہلا بڑا مسئلہ ہمارے گورنمنٹ کالجوں میں انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی غفلت ہے،جس کے باعث ہمارے طلبہ، جن کو ہم ملک و قوم کا مستقبل گردانتے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں۔ایک طالب علم یاد آ گیا جو ایک سرکاری کالج میں بی ایس کی سٹڈیز پڑھ رہاہے، نے داخلہ فارم کالج ہذا میںجمع کرایا، جسے کالج انتظامیہ نے غفلت کے باعث گم کر دیا اور قصور وار بھی طالب علم کو ہی ٹھہرایا ©،شاید وہ طالب علم واقعہ میں قصوروار ہو کہ اس نے کل کو ملک کے انتظامات کی باگ ڈور سنھبالنا ہے، جس کے لئے جدوجہد شرط ہے، داخلہ فارم نہیں ۔کالجوںکی انتظامیہ کی یہ حا لت ہے کہ طلبہ کو کالج امور کے لئے بر وقت مطلع نہیں کی جا تا، جس کے باعث انہیںمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مَیں نے تو طلبہ کو ان مشکلات سے بچنے کے لئے رضا کارانہ طور پر امور کالج میں بھی سر گرم پایا ہے کہ یہ مسئلے کلرک حضرات کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ان حالات میں بیچارے طلبہ کہاں جائیں ؟
ہمارے کالجوں میں دوسرا بڑا مسئلہ انتہائی معذرت کے ساتھ ہمارے اساتذہ حضرات کا غیر سنجیدہ رویہ اور لاپرواہی ہے، کیونکہ میں بھی اقبال ہی کا مقلد ہوں اور ان کے نظریہ کاحامی بھی ہوں :
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
مگر پہلے ےہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیںکہ اساتذہ کرام ہمارے ملک و قوم کا سرمایہ ہیں جو اپنی محنت شاقہ سے اس قوم میں فروغ تعلیم کے لئے مصروف عمل ہیں۔جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس قوم کی تربیت میں مسلسل کوشاں ہیں اور ان کی دیانتداری پر کسی کوذرہ برابر بھی شک نہیں۔ اور شک ہو بھی کیسے کہ استاد کے بغیر تو ہمارا روحانی وجود ممکن نہیں۔ میرا لکھنا ، آپ کا پڑھنا ممکن نہیں۔ جو نہایت ہی فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی درست معنوں میں نبھا رہے ہیں۔اور ان کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے ۔
کرپشن شاید ہماری رگوں میں رچ بس چکی ہے ، چند لوگوں پر مشتمل ایک طبقہ جو اس مقدس پیشے کو پامال کر رہا ہے ، نہ صر ف پامال کر رہا ہے، بلکہ اس مہذب پیشے کی توہین کر رہا ہے۔ یہ ان اساتذہ پر مشتمل ہے جو چند روپوں ، لالچ و حرص کے پیش نظر اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ اساتذہ کی یہ غیر معمولی لاپرواہی ایک طرف تو طلبہ وطالبات کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ ایسا طبقہ عدم توجہ کے باعث طالب علموں میں حقیقی جوہر تلاش کرنے سے قاصر ہوتے ہیںکہ استاد ہی وہ ایک منفرد آنکھ رکھتا ہے اور اس خداداد اوصاف کا مالک ہوتا ہے جو طالب علموں میں جوہر تلاش کر کے اس کی درست معنوں میں تربیت کر سکے اور ایک مہذب قوم کی تشکیل کے لئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اساتذہ کی طرف سے یہ لاپرواہی ایک غیر محسوس طریقہ سے تعلیمی نظام میں ایک ایسا چھید کر رہی ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ کے لئے خطرے کا باعث بھی ہو سکتاہے۔
اساتذہ کی کلاسوں میں غیر حاضری باعث تشویش ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کالج کی انتظامی سرگرمیوں میں یہ پیش پیش بھی ہوتے ہیں ، جس کے باعث یہ کوتاہی سرزد ہوتی ہے۔ مَیں ان کی یونین پر بحث نہیں کروں گا کہ شاید کسی حد تک وہ بھی تعلیم میں خلل کا باعث ہو ۔مَیں نے تو چند ایسے اساتذہ کو بھی دیکھا ہے جو کالج کے اوقات میں نجی اداروں میںکلاسز پڑھاتے ہیں یا انہوں نے اپنے نجی ادارے کھول رکھے ہیں جو انہیں کالجوں میں وقت دینے کے درمیان بڑی رکاوٹ ہیں۔
میرا اساتذہ سے کوئی ذاتی عناد نہیں کہ مَیں ان سے بہت استفادہ کرتا ہوں، مگر طلبہ اور تعلیمی اداروں کی حالت زار پر دل خون کے آنسو روتا ہے ، کیونکہ ایسے نظام سے نہ صرف تعلیم کو نقصان پہنچ رہا ہے، بلکہ دوسرے جانب طلبہ و طالبات بھی بد ظن ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ کالجوں میں روزبروز حاضری کی شرح بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور نجی اداروں کے طلبہ و طالبات ہر میدا ن میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس سسٹم کی اصلاح نہ کی گئی توجلد ہی ایک” ٹیچرز کارپوریٹ“ کا قیام دور نہیں، پھر ادارے نجی طور پر اساتذہ کو ہا ئر کرکے سرکاری تعلیمی اداروں کو چلانے پر مجبور ہو جائےں گے، جس سے سرکاری تعلیمی ادارے اپنا وجود کھو دیں گے، جو نظام تعلیم کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہوگا۔


Daily Pakistan  03-01-2014
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...