Tuesday 25 December 2012

Quaid-e-Azam ka Paegam Naojawano K Naam


Daily Ashsharq International  25-Dec-2012

Friday 20 July 2012

Tuesday 3 July 2012

Facebook Ki Fake Policy

http://www.dailyashsharq.com/index.php?spgmGal=ASH-SHARQ%20LAHORE%2FOLD%20PAPERS--2010%2F2012%2FJuly%2F03-07-12&spgmPic=9&option=com_spgm&Itemid=12#?

Tuesday 28 February 2012

’نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہء آزاد‘

شاعری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اس صفحہء ہستی میں حضرتِ انسان کی تاریخ یعنی جب ربِ کائنات نے اس وجودِ خاکی کا خمیر گوندھا اور اس پر ’احسن تقویم‘ کی مہر لگا ئی تو ’ونفخت فیہ من روحی ‘کے اعلان کے ساتھ اس میں روح بھی پھونک دی جس سے اسکے ظاہر اور باطن کی تکمیل ہوگئی۔ اس کے بعد انسان کوحواسِ خمسہ جیسی نعمت عطاء فرمائی جس سے انسان کائنات کا مشاہدہ کرنے لگا پھر ان مشاہدات کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے اسے عقل عطاء فرمائی اور انسان کئی طرح کے راستوں سے آشنا ہوگیا۔ پھر اس مشتِ خاکی کو طاقت ،اقتدار اور اختیار دیکراسے با صلاحیت اور آزاد کردیامگر ساتھ ہی اس کےِ گرد پُر کشش رنگینیاں بچھاکر اسے کئی طرح کی آزمائشوں اور خواہشات کا مقیدبھی کردیا۔ پھر اس کے تخیل کو وسیع تر اور عقل سے ماوریٰ کردیا جس سے انسان کائنات کے راز سمیٹنے لگا اور ان مشاہدات ، جذبات اور احساسات کواپنے الفاظ میں ڈھالنے لگا اور ان کے اظہار کے لیے کئی طرح کے الفاظ تراش کر ہم وزن کرنے لگا ،پھرانہیں ردیف اور قافیہ کی لڑی میں پَروکر انہیں غزل کرنے لگا، یعنی بَحر کو کوزے کا مقید کرنے لگا اور الغرض کہ شعر کہنے لگا ۔عام فہم میں یہ انسان شاعر کہلایا
۔بقول اقبالؒ :
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا مرا جنوں
خدا مجھے  نفسِ  جبرائیل   دے   تو    کہوں
 
آج کا انسان شاعری کے فہم سے نا آشنا ہے اور اس کو محض دیوانوں کا پیشہ گردانتاہے ۔یعنی جسے اس دَہر میں کوئی کام نہیں وہ یا تو گلی کوچہ پھر کر شاعر ی کرے گا یا کسی کونے میں بیٹھ کر محبوب کی مثنوی ترتیب دے گا۔ گویا ’ہم کو تو کوئی دوسرا کام بھی نہیں آتا‘۔ درحقیقت شعر کہنا ایک قابلِ عزت اور مہذب پیشہ ہے جس سے ہمارے بہت سے پیشوا سیراب ہوئے بلکہ ’ ایک دفعہ سرور کائنات ﷺ کے پاس کچھ صحابہ کرامؓ حاضر ہوئے اور شعر کہنے کے متعلق استفسار کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا ’ بے شک شاعری حکمت ہے اور حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے‘
شاعروں کے متعلق یہ ہماری خام خیالی ہے کہ یہ راہ راست سے منحرف شدہ لوگ ہیں ، حقیقت میں یہ قوم کا دیدہ ور کہلاتے ہیں۔شعر کہنا ایک خداداد صفت ہے جو لاکھ کوشش کے باوجود انسان اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا ، یہ لوگ منفرد قسم کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں جو خاص قسم کے مشاہدات سے منور ہوتا ہے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص مقصد کے حامل لوگ ہیں جو ہر وقت کائنات میں ’باغِ بہشت سے ملے حکمِ سفر کی تکمیل کے لیے محوِ جستجو ہیں‘ اور یہ اپنی زندگی کے مشاہدات کا نچوڑ نکال کر ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور ان کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبال ؒ اس پر کچھ یوں کلا م فرماتے ہیں
 
مجھے رازِ  دو  عالم  دل  کا  آئینہ  دکھاتا   ہے  
و ہی کہتا ہوں جوکچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

’کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک لکھاری کی کسی بڑے آدمی سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی فراغت کے بعد اس شخص نے لکھاری سے پوچھا’ آپ کیا کرتے ہیں؟‘ لکھاری نے جواب دیا ’میں لکھتا ہوں‘ بڑے آدمی نے کچھ دیر کے بعد پھر اپنایہی سوال دہرایا ، لکھاری نے پھر جواب میں کہا کہ ’میں لکھتا ہوں‘اسی طرح کچھ دیر اور گزری اور اس بڑے آدمی نے تیسری مرتبہ بھی لکھاری سے اپنا یہی سوال کر ڈالا اور لکھاری کی طرف سے وہی جواب پا یا، اب کی بار بڑا آدمی جنجھلا سا گیا اور بولا ’ وہ تو ٹھیک ہے مگر بھائی صاحب آپ کرتے کیا ہیں؟‘
یہاں اس واقعہ کا ذکرکرنے سے مراد میرا مزاج ظریفانہ نہیں،بلکہ یہ تفکر کی با ت ہے کہ جولوگ راتوں کو جاگ کر انتھک محنت کرتے ہیں اور بحرِ بیکراں سے ایسے موتی تلاش کرتے ہیں جو ہمارے لیے سیاسی، سماجی، معاشرتی حتی کہ دینی پہلوں کو سمجھنے میں بھی معاون اور سود مند ثابت ہو تے ہیں اور صرف اس جذبے سے کہ ہماری قوم مستفید ہو سکے یعنی ’دیکھا ہے جو میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے‘ مگر افسوس !اس قوم کا یہ المیہ ہے کہ یہ اپنے لوگوں کی قدر ہی نہیں گردانتے اور ان کی محنت کو محض ایک حادثہ ہی تصور کرتے ہیں اور اسوقت واویلا کرتے ہیں جب وہ ہم میں نہیں ہوتے بلکہ اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہوتے ہیں۔، اقبال نے جب اپنی معروف مثنوی اسرارورموز مکمل کر لی تو پروفیسر نکلسن نے آپ کو خط لکھا کہ یورپ والے آپ کی اس مثنوی سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں لہذٰا اس کے انگریری میں ترجمہ کی اجازت دی جائے تو اقبال افسردہ ہو گئے اور فرمایا’ میں نے جس قوم کے لیے یہ مثنوی تحریر کی ہے وہ تو اس سے استفادہ نہیں کرنا چاہتی جبکہ دوسرے اس سے مستفید ہونا چاہتے ہیں‘
حالیہ ہی روز میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں ایک تاریخی محفلِ مشاعرہ منعقد ہوا جس کا انعقادجناب سعداللہ شاہ صاحب کی خصوصی کاوش اور کالج ہذٰا کے پرنسپل صاحب کی شفقت سے ہوا ۔اہل سخن کے قریب یہ مشاعرہ بڑی قدر گردانتا ہے جس میں پاکستان بلکہ برصغیر کے نامور شعراء کرام نے بھرپور شرکت فرمائی اوربہت ہی عمدہ اور دلوں کو موہ لینے والے کلام پیش کئے جنہوں نے بڑی سحر انگیزی کے ساتھ حاضرین دلوں کو محظوظ کیا۔یعنی اس’ شمعِ تاثیر‘ محفلِ مشاعرہ میں وقعتا شعراء کرام نے بحثیت شمع کا کردار ادا کیا اور حاضرین کو مثلِ پروانہ کیا ۔ اس طرح کے اور بھی مشاعرے ہونے چاہییں تاکہ طلبہ ذیادہ سے ذیادہ ان قیمتی صحبتوں سے مستفید ہوسکیں جس میں اہل علم حضرات اپنے فن کا مظاہرہ پیش کر رہے ہوں ۔مگر اتنے عمدہ مشاعرے کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ حاضرین نے شاعروں کی داد رسائی میں خاصی مایوسی دکھائی اور دادِسخن میں قدرے بخل سے کام لیا ۔ جس کی وجہ میں اربابِ دانش کی کمی کو گردانتا ہوں حالانکہ ’نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہء آزاد‘ یہ درویش لوگ کسی داد کے خواہش مند نہیں ہوتے بلکہ یہ تو پیمبر ہوتے ہیں ۔اوع حرفِ آخر کہ یہ لوگ ہمارے ہیرو ہیں، ہمیں ان کے فن کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرنا چاہیے، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور اس سے بڑھ کر یہ ہمارا اخلاقی فرض بھی ہے۔
بقولِ شاعر:
خوش آ گئی ہے جہان کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...