Friday 23 August 2013

Ao Mil kr Dengue Mukaen.. آﺅ مل کر ڈینگی مکائیں....!

    برسات کے سیلابی موسم میں ایک طرف توسیلاب کی طغیانی کے باعث سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں دیہات زیر آب آ گئے ہیں اور عوام گھرسے بے گھر ہو کر ایک علاقہ تک محصور ہو گئے ہیں۔ ان کا مال و متاع ، ڈھور ڈنگر سب پانی کی نذر ہو گئے ہیںو تو دوسری طرف پھر ڈینگی ایک بار انگڑائی لیتا دکھائی دے رہا ہے اور عوام الناس پر بدستور حملے کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیلاب سے دوچار عوام کو ایک طرف تو اپنی”اراضی دریا بُرد“ ہونے کی فکر ہے، دوسری طرف ڈینگی کی یورش سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس سارے مخمصے کے پیش ِ نظر وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں تیزی اورساتھ ہی ڈینگی کے تدارک کے لئے جنگی بنیادوںپر کئے جانے والے اقدامات، دونوں ہی احسن اور عوام کے لئے خوش آئند ہیں۔
ڈینگی ایک جان لیوا مرض ضرور ہے، مگر اس سے بچاﺅ ناممکن نہیں،اس سے نجات کے لئے لوگوں میں شعور و آگہی ایک سب سے مو¿ثر حل ہے، جس کے ذریعے اس کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لئے وزیراعلیٰ صاحب کے کئے جانے والے بروقت اقدامات یقینا قابل تعریف و قابل تحسین ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ ڈینگی ایک ایسا مرض ہے جس کا مقابلہ کرنا فرد واحد یا کسی ادارے کے لئے ممکن نہیں اور نہ ہی حکومت اکیلے اس مہلک بیماری پر قابو پاسکتی ہے۔ اس کے لئے پوری قوم کو عزم مصمم کے ساتھ ایک ہونا ہوگااور حکومت کے ساتھ مل جل کر اس وباءکو جڑ سے ختم کرنے کے لئے بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔
ڈینگی کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر آگاہی مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز اتوار کو ڈینگی کے خاتمے کا دن منایا گیا ،جو آگاہی مہم کی پیش رفت کا اہم حصہ تھا،جس میں حکومت کی جانب سے مختلف آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور ڈینگی واک کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں عوام نے بھرپور شرکت کی۔ مزید برآں یہ آگہی مہم سرکاری دفاتر، کالجوںاور سکولوںمیں بھی آب و تاب سے جاری ہے، جس میںاساتذہ کرام ، پروفیسر حضرات اور سرکاری ملازمین کو ڈینگی سے بچاﺅ کی تدا بیر واضح کی جارہی ہیں اور اس بات پر تیارکیا جا رہا ہے کہ وہ ڈینگی سے پاک معاشرہ بنانے میں اپنا پورا کردار ادا کریں اور حکومت کا ساتھ دیں۔ عوامی حلقوں میں بھی ڈینگی پمفلٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں ،جو عوام کی بیداری کا باعث بن رہے ہیں۔
جہاں حکومت نے ڈینگی آگہی مہم چلا رکھی ہے، تو دوسری جانب اس میں کوتاہیاں کرنے والے غیرذمہ داران کے خلاف کارروائیاں بھی تیز کر دی ہےں۔ جگہ جگہ چھاپہ مار ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں، جو فرض شناس افسروں پر مشتمل ہیں، جو نیک دلی سے اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔یہ چھاپہ مار ٹیمیں عوامی سیر و تفریح گاہوں، سکولوں وغیرہ پر خاص طور پرنظر رکھے ہوئے ہیں اور ڈینگی کے لاروا کی چھان بین کر رہی ہیں۔ لاروے کی شناخت ہونے پر قانونی کارروائیاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں اور حکومت کے سخت حکم پران جگہوں کو سیل کیا جارہا ہے اور مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے، جو حکومت کی طرف سے ڈینگی کے تدارک کے لئے مخلصانہ ا اور ذمہ دارانہ اقدام ہے۔
میری عوام سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ ان ٹیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کریںاو ر اپنے گردو پیش میں خاص طور پر ان جگہوں کی نشاندہی کریں، جہاں ڈینگی کی افزائش ہو سکتی ہے۔ تاکہ بروقت کاروائی کر کے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔ ڈینگی ایک جان لیوا مرض سہی، مگر اگر ہم چند احتیاطی تدابیر اپنا لیں، تو اس مرض کو جڑ سے ہی ختم کیا جا سکتاہے ۔عوام کو چاہئے کہ جو لوگ باشعور ہیںوہ عام لوگوں میں آگاہی پھیلائیں اور ڈینگی سے بچاﺅ کے اقدامات کروائیں۔
دیکھاجائے تو سیلاب اور ڈینگی جیسی جان لیوا آفات گزشتہ چند سال سے ہمارے ملک میں عذاب جان بن چکی ہیں، جو ہمیں ہر سال ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ یقینا ہماری بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
ہمیں صدق دل سے اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے۔اپنے اعمال کا تزکیہ کرنا چاہئے ، تاکہ یہ عذاب الٰہی ہم سے ٹل سکیں اور اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ان عذابوں سے خلاصی دے ۔ آمین    ٭

Daily Pakistan 23-08-2013

Thursday 8 August 2013

شام میں محاذ آرائی۔۔ایک احمقانہ سوچ !

حافظ محمد عثمان
البرائٹ 1999ء میں امریکی صدر بن کلنٹن کی سیکریڑی آف سٹیٹ تھیں۔ ان دنوں امریکہ نے شمالی یورپ میں کوسوا کے مقام پر محاذ آرائی شروع کر رکھی تھی۔البرائٹ اس وقت صدر کے خاص کارندوں میں شامل تھیں۔ جو کوسوا میں براہ راست فوجی مداخلت کی حامی اور اس آپریشن کا اہم حصہ تھیں۔اس آپریشن میں اہم بات یہ تھی کہ یہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ہواکیونکہ اس وقت امریکہ کو سیکوڑٹی فورسز کی مخالفت کا خدشہ لاحق تھا لہذا اس نے یہ آپریشن اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیرہی شروع کر دیا۔ یہ امریکی جارحیت کا محاذ بغیر کسی نتیجہ کے چار ماہ تک جاری رہا پھر دونوں طرف فتح کااعلان کر دیا گیا۔ جس کی پوری دنیا میں شدید مزمت کی گئی ۔
کیا امریکہ شام میں ایک نئے محاذ کی تلاش میں ہے؟ آج اس سوال پر پوری دنیا کے سیاسی اور سماجی ماہرین کی نظریں مزکور ہیں۔ جو اس کے پیچھے کی سازش اور اصل معمہ کو سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ بظاہر تو امریکہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو جواز بنا کر شام کی سرزمین پر بربریت و خونریزی کی نئی داستان رقم کرناچاہتا ہے ۔یہ ایک ایسی بے معنی سی بات سے جس کے لیے وہ مسلسل اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے تگ و دو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں جب پوری دنیاامن کے لیے کوشاں ہے۔ایک نئے محاذ کا ذکرسب کے لیے ناگوار ہے اور پوری دنیا اس پر شدید مخالفت اورسخت ردعمل کااظہارکر رہی ہے ۔ نہ صرف امریکہ میں بلکہ اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے بھی شدید لعن طعن دیکھنے میں آ رہا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ میں چین اور روس نے ویٹو استعمال کر کے پہلے ہی اس حملے کی شدید مزمت کی ہے۔
دیکھا جائے یہ امریکی جارحیت کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ۔ اس سے پہلے بھی یہ عالمی امن کا علم بردار کوسوا ، عراق، افغانستان ، لیبیا اور بلاواسطہ پاکستان میں بھی اپنے جارحانہ انداز سے بہت سی معصوم جانوں کا قتل عام کر چکا ہے۔جس میں اس نے ظلم و ستم کے ایسے بازار گرم کیے جس نے گھروں کے گھر اجاڑ دیے۔ لسانیت و فرقہ واریت کی ایسی آگ لگائی کہ اس کے شعلہ دور دور تک پھیلنے لگے ۔ جس سے دیکھتے ہی دیکھتے پورا وسطی ایشیاء اسی آگ کی لپیٹ میں جلنے لگا۔ جس میں ایران ، عراق، پھر افغانستان اور تو اور پاکستان بھی اس آگ سے نہ بچ سکا جو ابھی تک اپنے بقاء کے لیے لڑ رہا ہے۔
گزشتہ برسوں سے امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے مسلم ممالک پر جارحانہ ظلم و ستم اس کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔اس کے بعد امریکہ میں وراثتی جنگ رواج پکڑنا شروع ہو گئی۔ صدر بش نے اقتدار سنبھالتے ہی پے در پے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ کر ڈالاجس کے سنگین نتائج پوری دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ پھر یہ دونوں جنگیں صدر ابامہ کے حصہ میں آئیں۔ عراق سے تو امریکی فوجوں کو انخلاء تو ماضی قریب میں ہوچکا ہے جبکہ افغانستان سے اگلے سال کے آخر تک متوقع ہے۔
صدر ابامہ اب شام میں نئی محاذ آرائی کر کے اس خونی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔مگر اب امریکہ کی شام پر حملہ کی یہ سوچ پوری دنیا میں نئی مخالفت کو جنم دے گئی جو مسلم امہ کے خلاف ایک نئی سازش کا حصہ ہو سکتی ہے جس سے پوری امت مسلمہ کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو نے کو خطرہ ہے۔ ایک وہ جو شام پر حملے کی کھلے عام تائید کر رہے ہیں۔ جن میں ترکی اور سعودی عرب شامل ہیں اور جو امریکی ملی بھگت سے شامی باغیوں کی پشت پناہی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسرا وہ ممالک جو اس حملے کی کھلے عام مخالفت کر رہے ہیں جن میں ایران ، لبنان، شام، اردن ، عراق، مصر شامل ہیں یہ مسلم ممالک ہیں جبکہ چین اور روس بھی اس حملہ کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
اس حملہ کو دنیا محتلف پہلوں سے دیکھ رہی ہے۔ ناقدین پوری دنیا سے اس سنگین صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اور اس کے پیش نظر پیدا ہونے والے خطرات سے امریکہ کو آگاہ کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف امریکی عسکری قیادت سے چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن نے بھی بار بار امریکہ عوام اور کانگرس کو عندیہ دیا ہے کہ شام پر براہ راست حملہ نہ صرف خطہ کو غیر مستحکم کرے گا بلکہ امریکہ کے خلاف مزید دہشت گردی کا باعث بھی بنے گا۔جبکہ بعض سیاسی اور صاحب نظر مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ کچھ ایسے جنگ پسند عناصر کی موجودگی ہے جو کسی خاص نظریہ کے حامل اسرائیل لابی کے مفادات کی خاطر شام میں فوجی مداخلت کی حمایت چاہتے ہیں۔ 
تقریبا تیرہ سال بعد آج امریکہ کی جانب سے وہی عمل دہرایا جا رہا ہے ۔ صدر ابامہ کے سیکٹری آف سٹیٹ رائس ہیں۔ جو البرائٹ کی پیروی کرتے ہوئے صدر کو شام میں فوجی مداخلت اور جارحیت پر اکسا رہے ہیں اور اس آپریشن کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ جس کے پیش نظر شام پر حملے کی قراداد وائٹ ہاؤس میں منظوری کے لیے پیش کی گئی ہے۔کوسوا کا یہ آپریشن موجودہ در پیش صورت حال کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔نتیجہ کوئی بھی یہ بات تو مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اس نئے محاذ سے کئی اور محاذ جنم لیں گے جس سے خطے کے امن کو بری طرح دھچکا لگے گا۔یہ جنگ محض معصوم جانوں کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔جو عراق ، افغانستان کی یاد دوبارہ تازہ کرے گی۔ صدر ابامہ امن میں نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے گی اور کوئی اور امن کی راہ تلاش کرنا ہو گی۔میرے خیال میں انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...