Monday 16 December 2013

Hame'n Loatna Hoga.. ہمیں لوٹنا ہوگا۔۔


Weekly Pilot Aina Nov 2013

Wednesday 11 December 2013

Hakoomat Shahrion ka Tahffuz Yakeni Banaye.............! حکومت شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے

موجودہ ملکی حالات سے کوئی بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ کراچی ، پشاور اور کوئٹہ کے بعد اب بدامنی کی فضاءلاہور میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اورآئے روز ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خور ی جیسے سنگین جرائم کے واقعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔لوگ ابھی راولپنڈی کے دل گرفتہ واقعہ کو نہیں بھلا پائے تھے، جہا ں شرپسندوں نے امن و امان کی دھجیاں اڑا دیں اور انسانیت کا قتل عام کیا، جس کے بعد تین روز تک کرفیو نافذرہا۔میرا شعور ا اس قسم کے سوالات کی دلدل سے ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ یہ حشر سا سماں کس نے پیدا کیا تھا ؟ انتظامیہ کیوں خاموش تماشائی بنی رہی ؟ کیا ذمہ داران کو سزامل گئی ؟وغیرہ وغیرہ۔ لاہور میں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی اور ایک بار پھر مذہبی رہنماﺅں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ایک جید عالم دین کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔اس دل گیر واقعہ کے بعد پورے شہر میں ہو کا عالم چھا گیا۔میرے سوالات دھرے کے دھرے رہ گئے کہ ایک اور معمہ سامنے آ گیا۔
مشہور مقولہ ہے کہ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت کے مترادف ہے۔بھلا ایک امام کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ جو اسلام وبھائی چارے کا درس دیتا ہے اور ملک کی سلامتی کے لئے آ ہ و زاری کرتا ہے ۔جو عوام کو اسلام جیسے عظیم مذہب کی طر ف راغب کرتا ہے،یہ کیسا المیہ ہے کہ لوگ امن و سلامتی کے داعیوں کے بھی دشمن بن گئے ہیں۔مجھے فیض کا ایک شعر یا د آ گیا جو شاید اس واقعہ کی عکاسی کر سکے:
نثار مَیں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کہ چلے
ایک طرف تو ٹارگٹ کلنگ جیسے دل ہلا دینے والے واقعات نے ذہنوں کو ماﺅف کر رکھا ہے ،جہاں جس کو چاہے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب شہر میں بڑھتی ہوئی لوٹ مار اور ڈکیتوں کی وارداتوں نے بھی شہریوںکا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں، جہاں کسی قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔گزشتہ دنوں ایک محنت کش نوجوان کاشف شادباغ میں اپنی روزی کمانے اور دکانداوں سے ریکوری کرنے میں مصروف تھا کہ دو مسلح افراد اسلحہ کے زور پر دن دہاڑے اس نوجوان سے تین لاکھ کی نقدی لے اڑے۔ وہ پریشانی کے عالم میں پولیس سٹیشن پہنچا ، خاصی حیل وحجت کے بعد اللہ اللہ کر کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوالات تو بہت ہیں کہ دن دہاڑے وہ مسلح افراد کیسے قانون کی گرفت سے فرار ہو گئے؟ شہر میں تو کتنے مقدمے ایسے ہوں گے جو درج نہیں ہو پاتے ہوں گے، ان کی پیروی کون کرے گا ؟ مجرم کیسے پکڑے جائیں ؟ ہم کب تک اس قسم کے ظلم سہتے رہیں گے ؟ شاعر نے کہا تھا کہ” ظلم سہنے سے حالات نہیں بدلیں گے“.... یقیناحکومت کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایک بات جو انسانی عقل و فہم سے بالا تر ہے کہ یہ لوگ کیسے قانون سے بالا تر ہوتے ہیں؟ جب بھی ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو انتظامیہ بجائے کوئی کارروائی کرنے کے خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔مجر موں کی بازپرس تو درکنار ان کی گرفت میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، واللہ اَعلم مجرموں کو زمین کھا جاتی یا آسمان نگل جاتا ہے؟ متاثرین کے حصے میں صرف تسلیاں اور دلاسے ہی آتے ہیں۔یہ کوئی ایک واردات نہیں کہ انسان خاموشی اختیار کر لے ،اگر ملکی تاریخ میں اس قسم کی وارداتو ںپر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو شاذو نادر ہی کوئی ایسا کیس ہوگا ،جس سے متاثرہ افراد مطمئن نظر آ سکیں،ورنہ اکثریت نالاں ہی دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے مجر م کی گرفت کا نہ ہونااور پاداش میں کوتاہی کرنا،جس سے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، جبکہ مجرم شہ پا کربا حوصلہ ہو جاتاہے ۔
 ملک میں قانون پر عمل درآمد کا تو یہ حال ہے کہ جس کا جو جی چاہتا ہے ،وہ کر گزرتا ہے ، کسی کو کسی کا کوئی خوف نہیں۔ تو پھر انسا ن پریشانی کے عالم میں یہی سوچتا ہے کہ ایسی انتظامیہ کا کیا فائدہ جو ملک کے نظم و نسق کو ہی نہ چلا سکے ؟....سوچا جائے تو بہت سے سوالات انسان کے ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ اتنی مصروف شاہراہ پر جب دن دہاڑے علامہ شمس الرحمن پر گولیاں چلائی گئیں تو مسلح افراد کیسے فرار ہو گئے ؟ سیکیورٹی کی یہ حالات ہوگی تو دوسرے علاقوں میں انسان خود تصور کر سکتا ہے ۔یہ ہمارے لئے سوچنے کا لمحہ ہے مَیں سمجھتا ہوں حکومت اور انتظامیہ کو اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر مکمل تحقیقات کروانی چاہیے اور عملی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے ۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں روزبروز تیزی دیکھنے کو نظر آ رہی ہے، جو باعث تشویش ہے ۔ اہل سنت والجماعت کے جید عالم کی شہادت انتظا میہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو ایک سنجیدہ مسئلہ بھی ہے، جس سے نظریں نہیں پھیری جا سکتیں ۔ جو شاید ایک فرقہ وارانہ واردات کی بھی کڑی ہو سکتی ہے ۔ اس قسم کے واقعات کو اگر نہ روکا گیا توخدانخواستہ اس سے مذہبی انتشار جنم لے سکتا ہے، جس کے نتائج سے سب بخوبی واقف ہیں۔ ملک میں پہلے ہی آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں، ہم مزید کسی بدامنی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ حکومت کو اپنے انتظامی امور اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا ،ان واقعات کاسنجیدگی سے نوٹس لینا، اور مجرموں کو عبرت نشانہ بنانا ہوگا،تاکہ یہاں امن و امان کا بول بالا ہو سکے ۔
کوئی تو جھو نکا ہوا کا مزاج بدلے گا
خدا نے چاہا تو اک دن سماج بدلے گا

Daily Pakistan : 11-Dec-2013

Wednesday 23 October 2013

Hum Boht Door Nhi, ab bhi waqt he ! ہم بہت دور نہیں اب بھی وقت ہے۔

اپنے گردو پیش کو آئینے میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ ایک بدترین معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ ہمارے معاشرے میںبہت سے گناہ عام ہو چکے ہیں یا پھر شاید سارے ہی۔ ہماری غفلت کا تو یہ عالم ہے کہ اب تو ہم صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو پرکھنے کا تکلف بھی نہیںکرتے۔ جھوٹ ہمارا شیوہ بن چکا ہے ۔بد اخلاقی ہم میں رچ بس گئی ہے ۔ ہم سیاہ کاریوں کی بہتات میں اپنا آپ تلاش کر رہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اس پر نادم ہونے کی بجائے ان کو بھی ہم تقدیر کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔اب وہ تمام ارشاد ات و نشانیاں ہمیں بھلی محسوس ہوتی ہیں، جن کا ذکر اللہ کے رسولﷺ نے اپنی تعلیمات میں فرمایا۔ ہم کس گمراہی کی طرف جا رہے ہیں؟شاید اقبالؒ نے ایسی ہی سوئی ہوئی قوم کے لئے لکھاتھا:خبر نہیں کیا ہے نام اس کا ، خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں، بنا کر تقدیر کا بہانہہمارا روشن ماضی بد قسمتی سے ہمارے لئے محض قصے کہانیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اقبال ؒ نے جس ٹوٹے ہوئے تارے سے ہمیں تشبیہ دی تھی، شاید وہ اب کسی طرح بھی ہم میں نہیں جھلکتی۔ ہم دو دھاروں کی طرح ایک دوسرے سے جدا ہوتے نظر آ رہے ہیں.... غالب نے کہا تھا کہ، بے خودی ، بے سبب نہیں غالب“!.... تو اس کا سبب یہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں مغربی کلچر فروغ پا رہا ہے، جس کے باعث عریانی و فحاشی عام ہو رہی ہے۔ ہماری آنکھوںمیںحیاءنام کی کوئی چیز نہیںرہی۔ ہمارے خون سفید ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں گناہوں کے مجرم پال رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا یا کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھا ؟ کہ ہم کس قسم کے معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں؟ کیا یہ معاشرہ اسلامی اقدار کا حامل معاشرہ کہلا سکے گا؟ایک معاشرے کی تربیت ایک گھر سے ہی ممکن ہے، اگر ایک گھر اچھی تہذیب و اقدار کا حامل ہو گا تو معاشرہ فروغ پائے گا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔”ایک محترمہ ٹی وی پر بیٹھے بے دریغ و برملا فرما رہی تھیں کہ پردہ دل میں ہوتا ہے اور حیاءانسان کی آنکھ میں ہوتی ہے ۔ جب اس قسم کی تعلیم دی جائے گی تو معاشرے میں عریانی و فحاشی ہی جنم لے گی ۔ جو پھر بہت سے گناہوں کا باعث بنے گی۔اللہ ہمیں ہدایت دے!جب ہمارا معاشرہ اس عدم تربیت سے سرفراز ہوگا، جب ہمارے گھروں ہی سے تربیت رخصت ہو جائے گی، تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا، جس میں لوگ حلال اور حرام میں فرق کرنے سے قاصر ہوں گے ،جس میں ناحق خون عام بہنے لگے گا ، انصاف بکنے لگے گا، جس میںفرقہ وارانہ فسادات جنگ کی مانند ہوں گے، لوگوں کے اخلاقی معیارآخری حدیں چھو نے لگیں گے، سر عام خود کشیاں ہونے لگیں گی، جب درندے معصوم جانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگیں گے، تو زلزلے نہیں آئیں گے تو اور کیا ہو گا؟دراصل ہم اپنا راستہ بھول چکے ہیں۔ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو بھلا کر شیطان کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔فطرت جو احکامات الٰہی کی پابند ہے، ملت کے ان گناہوں پرکیسے خاموش رہے، جو اب اجتماعیت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ہمارے ان گناہوں کے سبب زمین کانپ رہی ہے ، فطرت ہمیں جھنجوڑ رہی ہے ،زلزلے آ رہے ہیں۔انصاف ایک بار پھر آج عمر بن خطاب ؓ کی تلاش میں ہے ، آج پھر اسلا م سطان ٹیپو ؒ اور محمود غزنوی ؒ کا تقاضا کر رہا ہے ۔ بہت سی ناہید ابن یوسفؒ کی منتظر ہیں۔امت مسلمہ پر دِگرگوں کیفیت طاری ہے۔ بیرونی سازشیں عروج پر ہیں۔آج دنیا ہمیں دہشت گرد قرار دیتی ہے۔اب بھی وقت ہے۔ ہمیں واپسی اختیار کرنا ہو گی ان راستوں سے، جن پرہم سالہا سال سے چل رہے ہیں، ان فرسودہ رویوں سے جو ہماری عاقبت تباہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر اپنی خودی کو بلند کرنا ہو گا، صنم کدہ¿ جہاں میں اپنے خالق کو تلاش کرنا ہو گا، پھر اس کے حضور اپنی تمام ترسیاہ کاری کی معافی مانگنا ہو گی۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے اور امت مسلمہ کو ان عذابوں سے خلاصی دے جو ہم پر ہمارے گناہوں کے باعث مسلط ہو چکے ہیں ۔آمین۔ اقبال ہمیں اسی معاملے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اٹھو و گرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی دوڑو ! زمانہ چال قیامت کی چل گیا


Friday 27 September 2013

Safr-e-Aman سفرِ امن

26 ستمبر 2013

ہمارے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہو تا جا رہا ہے کہ ہم لوگ کس سمت میں سفر کر رہے ہیں؟ جو راستہ ہم اختیا ر کر چکے ہیں تاریک سے تاریک اور کٹھن سے کٹھن تر ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے چراغ بھی روشنی کی کمی کے باعث گل ہونے کو ہیں۔منزل کا نشان بھی غیر واضح نظر آ رہا ہے۔ایک تماشا سا برپا ہے ۔ تماش بین نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ہم پر خوف طاری ہے ۔ ہم دہشت زدہ ہو چکے ہیں۔لا محدود سوچوں کے گرداب نے ہمیں گھیر رکھاہے۔اس اندھیری فضامیں یخ بستہ ہوائیں بھی جمود طاری کر رہی ہیں۔ پھر ایک آواز اٹھتی ہے۔ ہر طرف گرد ہی گرد ہے ۔ چیخ و پکار ہے ۔چہروں کی شناخت ممکن نہیں رہی۔ہم ابر رحمت کے منتظر بیٹھے ہیں جو ان چہروں کو دھو سکے ، جن پر نشانِ جرم اب پختہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔کیا ہماری راہیں ہمیں منزل تک لے جائیں گی؟ کیا ہمارے چراغ ہمارا ساتھ دے سکیں گے؟ کیا وہ منزل امن کی جا ہوگی؟ اس ساری صورت حال کے پیش نظر گرتے سنبھلتے ہم پھر بھی منزل کی جانب رواں ہیں۔ کراچی میں آپریشن جاری ہے ۔ ہم امن کی جانب سفر کر رہے ہیں۔
اسی بات پر غالب یاد آ گئے :
©’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘
اس دور میں اگر غالب یا میر تقی میر زندہ ہوتے تو شاید آج ان کی شاعری میں بہت سا تغیر دیکھنے کو مل جاتا۔ ان کے سخن کا محور گردو پیش کے حالات ہوتے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ محبوب کے دل پذیر حسن اورجان لیوا جبر و ستم کے علاوہ ، دہشت گردی ، فرقہ واریت ، آمریت اور موجودہ سیاست و جمہوریت جیسے ©’وسیع و عریض‘ موضوعات پر بھی ضرور قلم کشائی کرتے ۔
کراچی میں آپریشن بڑی آب و تا ب سے جاری ہے ۔ اس آپریشن کے اثرات اور کارکردگی کے لحاظ سے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی شہ سرخیوں میں بہت سے رخ دکھائے جارہے ہیں۔طرح طر ح کے تبصرے بھی سامنے آ رہے ہیں ۔کچھ مبصرین اس آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ متعدد اس کی ناکامی کا واویلا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ویسے تو اس آپریشن میں سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گرد اور مشتبہ افراد حراست میں لیے جا رہے ہیں ،مگر کارروائی کے عمل میں ابھی بھی خاصی ڈھیل برتی جا رہی ہے۔ شاید کہ مجرموں کو سیاسی پشت پناہی میسر آ رہی ہو جس کے نتیجہ میں مجرم بری ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔کچھ واقعات میں تو حکومت بے بس بھی نظر آئی کہ شاید کچھ بااثر لوگ حکومت سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں جو اس میں حائل ہیںاور اس غیر جانبدار آپریشن میں رکاوٹ نظر آ رہے ہیں، مگر یہ آپریشن ملکی سلامتی اور کراچی امن و امان کے لیے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس آپریشن کے ذریعے بے دریغ و بلا امتیا ز کارروائیاں عمل میں لانا ضروری ہے ۔
ویسے تو ہمیں صوبائی و وفاقی حکومت پر پورا بھروسہ ہے ،مگر ایک اور بات لمحہ فکریہ بھی ہے جو پریشان کن بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔ دیکھا جائے تو ایک طرف دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے تو دوسری طرف متعدد مشتبہ افراد نے راہ فرار بھی اختیا ر کر رکھی ہے۔ بہت سے مطلوب مجرم کراچی شہر کو چھوڑ کر یا تو اپنی پناہ گاہوں کا رخ کر چکے ہیں یا پھر مصروف عمل ہیں۔ان میں سے کچھ تو اندون ملک رو پوش ہو گئے ہیں، جبکہ کچھ بیرون ملک کوچ کر چکے ہیں۔ان کی اس مجرمانہ حرکت سے اور حکومت کی اس غفلت سے کراچی میں جرائم کی شرح میں کمی تو ضرور آئے گی، مگر کیا یہ تبدیلی مستقل طور پر برقرار بھی رہ سکے گی؟اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کیا اس طرح یہ آپریشن کامیاب سمجھا جائے گا؟
کراچی میں امن مشکل نہیں ، چیف جسٹس صاحب درست فرماتے ہیں کہ اگر یہ نیت درست کر لیں تو فورا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔
 کراچی میں امن آپریشن اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمام سیاسی جماعتیں عملاً ایک دوسرے کا دست و بازونہ بن جائیں۔شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر بائیو میٹرک سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی مجرم بھی فرار نہ ہو سکے۔دیکھا جائے تو ملک کو اور بھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ ہمیں اس آپریشن پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے ۔ عوام کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ جن مجرموں پر جرم ثابت ہو جائے انہیں سخت سے سخت سزا دینی چاہیے تا کہ یہ لوگ آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بن سکےں ۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر سب کو مل کر اس آپریشن کو کامیاب بنانا چاہئے ۔ تما م مشکلات اور راہ میں حائل ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانا ہوگا جو اس سفر امن میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں ،تاکہ یہ شہر بلکہ یہ ملک پاکستان صحیح معنوں میں امن کا علم بردار ہو سکے۔آمین۔       ٭

Wednesday 11 September 2013

Friday 23 August 2013

Ao Mil kr Dengue Mukaen.. آﺅ مل کر ڈینگی مکائیں....!

    برسات کے سیلابی موسم میں ایک طرف توسیلاب کی طغیانی کے باعث سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں دیہات زیر آب آ گئے ہیں اور عوام گھرسے بے گھر ہو کر ایک علاقہ تک محصور ہو گئے ہیں۔ ان کا مال و متاع ، ڈھور ڈنگر سب پانی کی نذر ہو گئے ہیںو تو دوسری طرف پھر ڈینگی ایک بار انگڑائی لیتا دکھائی دے رہا ہے اور عوام الناس پر بدستور حملے کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیلاب سے دوچار عوام کو ایک طرف تو اپنی”اراضی دریا بُرد“ ہونے کی فکر ہے، دوسری طرف ڈینگی کی یورش سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس سارے مخمصے کے پیش ِ نظر وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں تیزی اورساتھ ہی ڈینگی کے تدارک کے لئے جنگی بنیادوںپر کئے جانے والے اقدامات، دونوں ہی احسن اور عوام کے لئے خوش آئند ہیں۔
ڈینگی ایک جان لیوا مرض ضرور ہے، مگر اس سے بچاﺅ ناممکن نہیں،اس سے نجات کے لئے لوگوں میں شعور و آگہی ایک سب سے مو¿ثر حل ہے، جس کے ذریعے اس کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لئے وزیراعلیٰ صاحب کے کئے جانے والے بروقت اقدامات یقینا قابل تعریف و قابل تحسین ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ ڈینگی ایک ایسا مرض ہے جس کا مقابلہ کرنا فرد واحد یا کسی ادارے کے لئے ممکن نہیں اور نہ ہی حکومت اکیلے اس مہلک بیماری پر قابو پاسکتی ہے۔ اس کے لئے پوری قوم کو عزم مصمم کے ساتھ ایک ہونا ہوگااور حکومت کے ساتھ مل جل کر اس وباءکو جڑ سے ختم کرنے کے لئے بھرپور تعاون کرنا ہوگا۔
ڈینگی کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر آگاہی مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز اتوار کو ڈینگی کے خاتمے کا دن منایا گیا ،جو آگاہی مہم کی پیش رفت کا اہم حصہ تھا،جس میں حکومت کی جانب سے مختلف آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور ڈینگی واک کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں عوام نے بھرپور شرکت کی۔ مزید برآں یہ آگہی مہم سرکاری دفاتر، کالجوںاور سکولوںمیں بھی آب و تاب سے جاری ہے، جس میںاساتذہ کرام ، پروفیسر حضرات اور سرکاری ملازمین کو ڈینگی سے بچاﺅ کی تدا بیر واضح کی جارہی ہیں اور اس بات پر تیارکیا جا رہا ہے کہ وہ ڈینگی سے پاک معاشرہ بنانے میں اپنا پورا کردار ادا کریں اور حکومت کا ساتھ دیں۔ عوامی حلقوں میں بھی ڈینگی پمفلٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں ،جو عوام کی بیداری کا باعث بن رہے ہیں۔
جہاں حکومت نے ڈینگی آگہی مہم چلا رکھی ہے، تو دوسری جانب اس میں کوتاہیاں کرنے والے غیرذمہ داران کے خلاف کارروائیاں بھی تیز کر دی ہےں۔ جگہ جگہ چھاپہ مار ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں، جو فرض شناس افسروں پر مشتمل ہیں، جو نیک دلی سے اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔یہ چھاپہ مار ٹیمیں عوامی سیر و تفریح گاہوں، سکولوں وغیرہ پر خاص طور پرنظر رکھے ہوئے ہیں اور ڈینگی کے لاروا کی چھان بین کر رہی ہیں۔ لاروے کی شناخت ہونے پر قانونی کارروائیاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں اور حکومت کے سخت حکم پران جگہوں کو سیل کیا جارہا ہے اور مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے، جو حکومت کی طرف سے ڈینگی کے تدارک کے لئے مخلصانہ ا اور ذمہ دارانہ اقدام ہے۔
میری عوام سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ ان ٹیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کریںاو ر اپنے گردو پیش میں خاص طور پر ان جگہوں کی نشاندہی کریں، جہاں ڈینگی کی افزائش ہو سکتی ہے۔ تاکہ بروقت کاروائی کر کے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔ ڈینگی ایک جان لیوا مرض سہی، مگر اگر ہم چند احتیاطی تدابیر اپنا لیں، تو اس مرض کو جڑ سے ہی ختم کیا جا سکتاہے ۔عوام کو چاہئے کہ جو لوگ باشعور ہیںوہ عام لوگوں میں آگاہی پھیلائیں اور ڈینگی سے بچاﺅ کے اقدامات کروائیں۔
دیکھاجائے تو سیلاب اور ڈینگی جیسی جان لیوا آفات گزشتہ چند سال سے ہمارے ملک میں عذاب جان بن چکی ہیں، جو ہمیں ہر سال ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ یقینا ہماری بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
ہمیں صدق دل سے اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے۔اپنے اعمال کا تزکیہ کرنا چاہئے ، تاکہ یہ عذاب الٰہی ہم سے ٹل سکیں اور اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ان عذابوں سے خلاصی دے ۔ آمین    ٭

Daily Pakistan 23-08-2013

Thursday 8 August 2013

شام میں محاذ آرائی۔۔ایک احمقانہ سوچ !

حافظ محمد عثمان
البرائٹ 1999ء میں امریکی صدر بن کلنٹن کی سیکریڑی آف سٹیٹ تھیں۔ ان دنوں امریکہ نے شمالی یورپ میں کوسوا کے مقام پر محاذ آرائی شروع کر رکھی تھی۔البرائٹ اس وقت صدر کے خاص کارندوں میں شامل تھیں۔ جو کوسوا میں براہ راست فوجی مداخلت کی حامی اور اس آپریشن کا اہم حصہ تھیں۔اس آپریشن میں اہم بات یہ تھی کہ یہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر ہواکیونکہ اس وقت امریکہ کو سیکوڑٹی فورسز کی مخالفت کا خدشہ لاحق تھا لہذا اس نے یہ آپریشن اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیرہی شروع کر دیا۔ یہ امریکی جارحیت کا محاذ بغیر کسی نتیجہ کے چار ماہ تک جاری رہا پھر دونوں طرف فتح کااعلان کر دیا گیا۔ جس کی پوری دنیا میں شدید مزمت کی گئی ۔
کیا امریکہ شام میں ایک نئے محاذ کی تلاش میں ہے؟ آج اس سوال پر پوری دنیا کے سیاسی اور سماجی ماہرین کی نظریں مزکور ہیں۔ جو اس کے پیچھے کی سازش اور اصل معمہ کو سمجھنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ بظاہر تو امریکہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو جواز بنا کر شام کی سرزمین پر بربریت و خونریزی کی نئی داستان رقم کرناچاہتا ہے ۔یہ ایک ایسی بے معنی سی بات سے جس کے لیے وہ مسلسل اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے تگ و دو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان حالات میں جب پوری دنیاامن کے لیے کوشاں ہے۔ایک نئے محاذ کا ذکرسب کے لیے ناگوار ہے اور پوری دنیا اس پر شدید مخالفت اورسخت ردعمل کااظہارکر رہی ہے ۔ نہ صرف امریکہ میں بلکہ اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے بھی شدید لعن طعن دیکھنے میں آ رہا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ میں چین اور روس نے ویٹو استعمال کر کے پہلے ہی اس حملے کی شدید مزمت کی ہے۔
دیکھا جائے یہ امریکی جارحیت کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ۔ اس سے پہلے بھی یہ عالمی امن کا علم بردار کوسوا ، عراق، افغانستان ، لیبیا اور بلاواسطہ پاکستان میں بھی اپنے جارحانہ انداز سے بہت سی معصوم جانوں کا قتل عام کر چکا ہے۔جس میں اس نے ظلم و ستم کے ایسے بازار گرم کیے جس نے گھروں کے گھر اجاڑ دیے۔ لسانیت و فرقہ واریت کی ایسی آگ لگائی کہ اس کے شعلہ دور دور تک پھیلنے لگے ۔ جس سے دیکھتے ہی دیکھتے پورا وسطی ایشیاء اسی آگ کی لپیٹ میں جلنے لگا۔ جس میں ایران ، عراق، پھر افغانستان اور تو اور پاکستان بھی اس آگ سے نہ بچ سکا جو ابھی تک اپنے بقاء کے لیے لڑ رہا ہے۔
گزشتہ برسوں سے امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے مسلم ممالک پر جارحانہ ظلم و ستم اس کی میراث بن کر رہ گئی ہے۔اس کے بعد امریکہ میں وراثتی جنگ رواج پکڑنا شروع ہو گئی۔ صدر بش نے اقتدار سنبھالتے ہی پے در پے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ کر ڈالاجس کے سنگین نتائج پوری دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ پھر یہ دونوں جنگیں صدر ابامہ کے حصہ میں آئیں۔ عراق سے تو امریکی فوجوں کو انخلاء تو ماضی قریب میں ہوچکا ہے جبکہ افغانستان سے اگلے سال کے آخر تک متوقع ہے۔
صدر ابامہ اب شام میں نئی محاذ آرائی کر کے اس خونی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔مگر اب امریکہ کی شام پر حملہ کی یہ سوچ پوری دنیا میں نئی مخالفت کو جنم دے گئی جو مسلم امہ کے خلاف ایک نئی سازش کا حصہ ہو سکتی ہے جس سے پوری امت مسلمہ کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو نے کو خطرہ ہے۔ ایک وہ جو شام پر حملے کی کھلے عام تائید کر رہے ہیں۔ جن میں ترکی اور سعودی عرب شامل ہیں اور جو امریکی ملی بھگت سے شامی باغیوں کی پشت پناہی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسرا وہ ممالک جو اس حملے کی کھلے عام مخالفت کر رہے ہیں جن میں ایران ، لبنان، شام، اردن ، عراق، مصر شامل ہیں یہ مسلم ممالک ہیں جبکہ چین اور روس بھی اس حملہ کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
اس حملہ کو دنیا محتلف پہلوں سے دیکھ رہی ہے۔ ناقدین پوری دنیا سے اس سنگین صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اور اس کے پیش نظر پیدا ہونے والے خطرات سے امریکہ کو آگاہ کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف امریکی عسکری قیادت سے چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن نے بھی بار بار امریکہ عوام اور کانگرس کو عندیہ دیا ہے کہ شام پر براہ راست حملہ نہ صرف خطہ کو غیر مستحکم کرے گا بلکہ امریکہ کے خلاف مزید دہشت گردی کا باعث بھی بنے گا۔جبکہ بعض سیاسی اور صاحب نظر مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ کچھ ایسے جنگ پسند عناصر کی موجودگی ہے جو کسی خاص نظریہ کے حامل اسرائیل لابی کے مفادات کی خاطر شام میں فوجی مداخلت کی حمایت چاہتے ہیں۔ 
تقریبا تیرہ سال بعد آج امریکہ کی جانب سے وہی عمل دہرایا جا رہا ہے ۔ صدر ابامہ کے سیکٹری آف سٹیٹ رائس ہیں۔ جو البرائٹ کی پیروی کرتے ہوئے صدر کو شام میں فوجی مداخلت اور جارحیت پر اکسا رہے ہیں اور اس آپریشن کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ جس کے پیش نظر شام پر حملے کی قراداد وائٹ ہاؤس میں منظوری کے لیے پیش کی گئی ہے۔کوسوا کا یہ آپریشن موجودہ در پیش صورت حال کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔نتیجہ کوئی بھی یہ بات تو مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اس نئے محاذ سے کئی اور محاذ جنم لیں گے جس سے خطے کے امن کو بری طرح دھچکا لگے گا۔یہ جنگ محض معصوم جانوں کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔جو عراق ، افغانستان کی یاد دوبارہ تازہ کرے گی۔ صدر ابامہ امن میں نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے گی اور کوئی اور امن کی راہ تلاش کرنا ہو گی۔میرے خیال میں انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔

Friday 19 July 2013

Energy Policy Waziha Kren...! انرجی پالیسی واضح کریں

چند روز قبل وفاقی وزیر پانی و بجلی جناب خواجہ آصف صاحب نے یہ خوش خبری برملا سنا ئی کہ حکومتی سطح پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے ، تمام آئی پی پیز کو 300 بلین کی ادئیگیاں کی جا چکی ہیں اور رمضان المبارک کے بارکت مہینے میں لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں5 گھنٹے تک کمی کی جائے گی۔ یعنی یہ اعلانات اس مخفی انرجی پالیسی کا حصہ ہیں جو جناب وزیراعظم صاحب نے ہنگامی بنیادوں پرمرتب فرمائی، جس سے لوڈشیڈنگ کے اس جن کو بوتل میں بند کیا جا سکے گااور جس میں عوام کو ریلیف کا واضح موقف درج ہے۔آج وزیر اعظم کو قلم دان سنبھالے دو ماہ کے لگ بھگ ہو گئے ہیں، مگر بدقسمتی سے جس کام کو وہ جنگی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے تھے اس کے لئے کوئی لائحہ عمل ا بھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔
 قارئین محترم ! آپ خاطر جمع رکھیں۔ ملکی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات تو مصدقہ حقیقت ہے کہ بجلی کا مسئلہ اب اتنی شدت اختیا ر کر گیا ہے کہ اس کا فوری حل شاید ہی ممکن ہو سکے ۔ اور اس کے مکمل حل کے لئے شاید موجودہ حکومت کی مدت بھی ناکافی ہے، مگر کہتے ہیں کہ ’دیر آید درست آید۔‘ عوام کو اس بار بھی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ ڈیموں کے محدود ہونے کی وجہ سے اور پانی کی قلت کے باعث گزشتہ کئی سال سے اب ہماری بجلی کی پیداوار ہمارے پرائمری سورس یعنی پانی پر بہت کم اور متبادل ذرائع یعنی گیس اور ڈیزل پر زیادہ ہے۔ جس کے لئے ہمیں نجی کمپنیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ جس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ ہماری طلب اور رسد میں واضح فرق پیدا ہو گیا ہے جو پورا کرنا موجودہ انفراسٹرکچر میں ممکن نہیں اور دوسرا ہمیں مہنگے داموں یہ بجلی خریدنا پڑتی ہے جس کے ہم اب متحمل نہیں۔جس کے لئے ہمیں انفراسٹرکچر میںتبدیلی لانا ہو گی۔
گیس اور ڈیزل بجلی کی پیداوار کے متبادل اور بہت مہنگے ذرائع ہیں جن سے اگر ہم بجلی پوری کرنے کی کوشش کرتے رہے تو شاید یہ کسی اندھے کنویں میں روپے ڈالنے کے مترادف ہوگا۔اور ہمارا لوڈشیڈنگ فری پاکستان کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ ہم ہر سال اپناامدادی کشکول اس کنویں میں انڈیلتے رہیں گے اور مزید آئی ایم ایف کے قرض تلے دبتے چلے جائیں گے اور حالات گزشتہ سے پیش تر ہوتے جائیں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو مہنگا تیل اور ڈیزل جو بجلی کی پیداروار میں خرچ ہوتا ہے جو ہماری استطاعت سے اب کوسوں دور ہیں اور جس کی مد میںبجٹ کا کافی حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔اور دوسری طرف یہ تیل مافیہ ہے جو کہ حکومت کو غیر میعاری تیل کی فراہمی کرتی ہے۔ جس سے مطلوبہ پیداوار کا حدف حاصل نہیں ہونے پاتا۔اور لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں بھی گھنٹوں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔الغرض، ان عارضی پیداواری مشنری سے نکل کر ہمیں ایک مستقل متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔ پیداوار کے لئے مروجہ سسٹم سے مجوزہ سسٹم تک(یعنی متبادل ذرائع کوئلہ ، پانی، گنے کی پھوک وغیرہ)کا سفر حقیقتاً ضروری ہے، جس میں واقعتا وقت اور پیسہ درکار ہیں۔
ہماری ملک میں بجلی کی طلب 18 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔ اور چند ماہ قبل پیدار 12 ہزار کے قریب تھی، مگر گزشتہ ماہ جولائی میں آئی پی پیز کو 300 بلین کی ادائےگیوں کے بعد اس میں ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے اور اب پیداوار 15ہزار تجاوز کر گئی ہے۔اور دوسری طرف اگر لوڈشیڈنگ کے دورانیہ کی بات کی جائے تو پہلے سیر تھی تو اب سوا سیر ہے۔
 لاہور کے مختلف مقامات جس میں شالامار ٹاﺅن ، مغلپورہ ، داروغہ والا، واہگہ ٹاﺅن ، شادباغ، جوہر ٹاﺅن ، اقبال ٹاﺅن، یتیم خانہ، ملتان روڈ اور سبزہ زار کے گردونواں کے علاقے شامل ہیں، میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے، جس کے ساتھ ساتھ سحر اور افطار کے اوقات میں بھی بجلی کی بندش کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اورسراپہ احتجاج ہیں۔
عوامی حقائق کا اندازہ ملک میں کی جانے والی لوڈشیڈنگ کے اوقات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ جس کے بعد جناب وزیر پانی و بجلی صاحب کا یہ بیان جو انہوں میں قبل از رمضان پیش کیا تھا کہ ’رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ میں 5 گھنٹے تک کی کمی کی جائے گی جس میں سحر و افطار میں خصوصی طورپر لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی‘ بے بنیاد سا لگتا ہے، کیونکہ لوڈشیڈنگ کی صورت حال سے یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے یہ اعلان پاکستانی عوام کے لئے نہیں بلکہ کہیں اور بسنے والوں لوگوں کے لئے کیاہے۔ یا یہ بھی حد امکان ہے کہ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اب نواز شریف صاحب کی حکومت آ چکی ہے۔ وہ اب وفاقی وزیر ہیں اور انہیں اب بڑے بڑے دعوں کو عملی جامہ پہنانا ہے جو وہ ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر بڑے وثوق و یقین سے کیا کرتے تھے ۔اب انہیں دعوں اور بیان بازی کی بجائے عملی طور پر کوئی اقدام لینا ہوگا تا کہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
میری حکومت سے استدعاءہے کہ پہلے ہی مہنگائی ، دہشت گردی سے عوام کی کمر بری طرح زخمی ہو چکی ہے۔ ان کے مزید صبر کا امتحان لینے کی بجائے انہیں ریلیف فراہم کیا جائے جس کے لئے انہوں نے آپ کو ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچایا ہے۔ان کے لئے مستقل اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔جو ان کے لئے مرہم ثابت ہوسکے ۔ بجلی چوروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع فوری ترک کر کے متبادل ذرائع دیکھے جائیں، جو سستے اور میعاری ہوں۔اللہ پاک نے ہمارے ملک کو بہت سے وسائل سے مالا مال کیا ہے خدارا انہیں بروئے کار لایا جائے۔ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے باوجود لوڈشیڈنگ دورانیہ کا جائزہ لیا جائے جو کہ 16 گھنٹے سے تجاوز کر چکا ہے۔با لخصوص رمضان المبارک میںسحر و افطار میں لوڈشیڈنگ کا نوٹس لیں اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم فرمایں۔
 بجلی کا مسئلہ اگر جلد حل نہیں ہو سکتا تو برائے کرم لوڈشیڈنگ کا کوئی واضح شیڈول فراہم کردیں تاکہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے خلاصی ہو سکے۔ جناب وزیراعظم صاحب سے میری درخواست ہے کہ خدارا واضح انرجی پالیسی کا اعلان کریں، جس انرجی پالیسی کا تذکرہ الیکشن سے قبل کیا جاتا رہا۔ اس کا لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔اس کا روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ تاکہ عوام اور حکومت میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے اور انہیں بھی ملکی مسائل کا ادراک ہو سکے اور یہ بیچارے بھی کوئی نئی امید باندھ سکیں اور سکھ کا سانس لے سکیں

روزنامہ پاکستان ۔ 2013-07-19
http://www.dailypakistan.com.pk/columns/19-Jul-2013/49051

Monday 17 June 2013

نظام تعلیم کی تجدید کے لئے چند تجاویز

حافظ محمد عثمان

امتحانا ت کا زور اپنے عروج پر ہے۔طلبہ و طالبات ایک طرف شدید گرمی کے باوجود اپنے امتحانات کی تیاری میں خلل سے
 پریشان ہیں تو دوسری طرف لوڈشیڈنگ کے عذاب نے ان معصوموں کا جینا محال کر رکھا ہے۔گرمی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے طلبہ و طالبات امتحانات کی تیاری میں مگن نظرآتے ہیں اورامتحانات میں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خوف میں مبتلا بھی ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے بورڈ حکام کی جانب سے کی جانے والی غفلت اور ان کے غیر ذمہ دارنہ رویوں سے طلبہ و طالبات سخت نالاں ہیں اور اس فرسودہ نظام تعلیم کے خلاف سراپہ احتجاج ہیں، جس میں غیر شفافیت نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ہر طالب علم کی خواہش ہے کہ وہ امتحانات میں محنت کرکے اچھے گریڈ میں پاس ہو سکے اور اچھا روزگار تلاش کر سکے،مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میںبرسوں سے وہی پرانی طرز کا ایجوکیشن سسٹم مروج ہے۔وہی پرانا امتحانات کا نظام جس سے طا لب علموں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
پوری دنیا میں طالب علموں کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ان میں موجود اہلیت کو اجاگر کیا جاتا ہے اور ان کی درست سمت میں راہنمائی کی جاتی ہے، جس سے طالب علم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کے لئے نئے راستے پیدا کرتا ہے۔ جس سے ٹیکنالوجی کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ مزید روزگار کے مواقع ملتے ہیں اور ملک ترقی کی راہوں پر رواں دواں ہوتا ہے۔ ملک میں طلبہ و طالبات کی محنت اور صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو یہ گمان ہوتاہے کہ شاید اللہ پاک نے تمام باہنر اور باصلاحیت لوگ ہمارے ہی خطے میں پیدا فرمائے ہیں جو ان محدود وسائل کے ساتھ بھی اپنی محنت کے سبب چمک دمک رہے ہیں ۔ان کی اگر صحیح معنوں میں تربیت کی جائے تو یہ چمن بوئے گل سے مہک اٹھے ،مگر افسوس! اس فرسودہ نظام تعلیم کے ذریعے ہم اس چمن کے قدرتی حسن کو پامال کر رہے ہیں، جو ترقی کے سفر میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ایک اچھے تعلیمی نظام کے لئے ایک صحت مند طالب علم، ایک ہنرمند استاد، ایک جاندار نصاب اور ایک ایماندار امتحانی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔
صحت مند طالب علم:صحت مند طالب علم سے مراد ایسا طالب علم ہے جو اپنی تعلیم میں اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے اور اپنی تمام تر دلچسپیوں کو تعلیم کی طرف مرکوز کر سکے۔ہمارے ہاں صحت مند طلبہ و طالبا ت کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر شعبے کا تعلق طالب علموں میں موجود صلاحیتوں پر نہیں، بلکہ ان کے امتحانات کے نمبروں سے مشروط ہے۔ جس سے زیادہ تر طالبعلم اپنے پسندیدہ شعبے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جو طلبہ کے عزم کو ٹھیس پہنچانے کا پہلا قدم ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ”شوق کا کوئی مول نہیں“۔یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی دلچسپی میں تغیر کا اختیار نہیں رکھتا، اگر دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح ہم بھی اپنے طالب علموں کا رجحان اور قابلیت کا ادراک کر لیں تو میرا خیال ہے بہت سے ہنرمند لوگوں اور قابل لوگوں سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔
ہنر مند استاد:ہنر مند استاد سے مراد ایسا استاد ہے جو طالبعلم کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کر سکے اور اس میں نئے جوہر تلاش کر سکے ۔ہمیں اساتذہ کرام کے خلاف بل پاس کرنے کی بجائے طالبعلموں کو ان کی تعظیم کا درس دینے کی ضرورت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ صوبائی سطح پر اساتذہ حضرات کے لئے ایسی تربیتی ورک شاپس کے انعقاد کی ضرورت ہے، جن کے ذریعے نہ صرف انہیں نصاب اور تعلیم کے جدید ذرائع کے بارے میں بریفنگ دی جائے، بلکہ انہیں طالبعلموں کے ساتھ مثبت رویے کی بھی تلقین کی جائے اور ان میں موجو د اخلاقی اقداروں کو اجاگر کرنے کی بھی تربیت دی جائے ، کیونکہ ایک اچھا استادمعاشرے کے مستقبل کا ذمہ دار ہوتاہے اور میرا خیال ہے اسے اچھے اخلاق ، اعلیٰ اقدار کے ساتھ ساتھ بے مثال نفسیات کا بھی مالک ہونا چاہیے۔
 جاندار نصاب:جاند ملک میں ایک سرکاری نصاب کا تعین کیا جائے جو ہر صوبے میں یکساں طور پر پڑھایا جائے ،تاکہ تعلیم میں تفریق کو ختم کیا جاسکے۔اس نصاب کا انتخاب وفاق کرے اور صوبائی سطحوں پر اس میں ترامیم پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اس کے لئے ملک میں وفاقی سطح پر ایک نصاب کمیٹی بنانی چاہیے جو تمام صوبوں کے قابل پروفیسروں اور اساتذہ حضرات پر مشتمل ہو اور ملکی حالات کے پیش نظر مناسب اور جامع نصاب تجویز کرے،جس پر صوبائی حکومتیں عمل درآمد کا پورا حق رکھتی ہوں۔اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی مجلس شوریٰ ہونی چاہیے جو وفاق کی نصاب کی جانچ پڑتال میں معاونت کرسکے۔
ایماندار امتحانی نظام: ایک ایماندار امتحانی نظام سے مراد ایسا امتحانی نظام ہے جس پر پورا ملک متفق ہو اور اپنے اندر غیر جانبداری رکھتا ہو، تاکہ امتحانات کی اس قسم کی نا مناسب چیکنگ سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے، جس نے ان خستہ حال طلبہ و طالبات کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔بچے امتحانات کی تیاری کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں اور جان مار کر تیاری کرتے ہیں، مگر یہ عذاب مقہور اس وقت نازل ہوتا ہے جب ان کے امتحانات کانتیجہ انہیں دست یاب ہوتا ہے۔یہ صرف چند لوگوں کا گروہ ہے جو ایک مافیا کی طرح کام کرتا ہے اور چند روپوں کے لالچ کے عوض بچو ں کا مستقبل داﺅ پر لگادیتا ہے، جس کا گہرا اثر بچوں کے کردار اور ان کی نفسیات پر پڑتاہے اور وہ اپنی محنت کے مطابق رزلٹ نہ پا کر بدظن ہوجاتے ہیںاور معاشرے کے خلاف نہ صرف علم بغاوت بلند کرتے ہیں،بلکہ معاشرے کی منفی اقدار کی دست گاہ بن جاتے ہیں۔ اس کے مناسب حل کے لئے امتحانات کا شعبہ بھی سرکاری طور پر وفاقی حکومت کے ساتھ ہونا چاہیے جو ایک ہی وقت میں پورے ملک میںامتحانات کا انعقاد کروا سکے اور آئے دن پیپر آﺅٹ ہونے کے عذاب سے گلوخلاصی ہوسکے اور صرف انعقاد ہی نہ کروا سکے، بلکہ ان کی شفاف اور ذمہ دارانہ چیکنگ کا بھی بندوبست کرواسکے۔ تعلیمی نظام کی یکسانیت سے اس نظام میں مزید شفافیت آئے گی ۔ اور حقدار طلبہ و طالبات کو ان کا حق مل سکے گا،جس سے طالبعلموں میں تعلیم کا رجحان فروغ پائے گااور عوام کو ان بورڈ مافیہ سے خلاصی مل سکے ،جو چند ٹکوں کے عوض یا با اختیار لوگوں کے دست شفقت پر معصوم بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتی ہے اور غیر ذمہ دارنہ اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔



مختصر تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق اور حکومت کا اولین فرض ہے۔حکومت کو تعلیمی لحاظ سے ایسی جدوجہد کرنا ہو گی، جس سے ملک میں تعلیم کے بحران پر بھی قابو پایا جاسکے اور اس فرسودہ نظام تعلیم کی تجدید نو کی جائے ،تاکہ ہر طالب علم کو اس کا منا سب حق مل سکے اور جو غریب لوگ ہیں وہ بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر اپنے لئے روزگار کی راہیں ہموار کر سکیں۔ ٭

Friday 22 March 2013

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...