Tuesday 11 February 2014

’کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں‘

حافظ محمد عثمان
ایک محبوب دوست جناب فیضان عارف صاحب نے فرمائش کی کہ اقبالؒ کے اس مصرعہ کی وضاحت پیش کر دیں۔’کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں‘۔ ویسے مجھے ان کی یہ بات پسند آئی کہ انسان کی فکری و ادبی صلاحیتوں کو پرکھنے کا یہ اچھا طریقہ ہے کہ اس شخص سے کسی شعر کی تشریح پوچھ لی جائے، ویسے بھی شعر اگر اقبال کا ہو تو چند لمحوں میں اس کی ہوا نکل جائے گی۔ معروف شاعر واصف علی واصفؒ نے سے کسی نے کلام اقبالؒ کے بارے میں دریافت کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ ’اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے آپ کو قلندر ہونا پڑتا‘۔جبکہ مجھ جیسا کم علم کم فہم شخص اقبالؒ کے تخیل کی کیا بیانی کر سکتا ہے کہ جس نے خود اپنے بارے میں کہہ رکھا ہو ’ اقبالؒ بھی اقبالؒ سے آگاہ نہیں ہے‘۔ یعنی اس بحر بیکراں کی تشریح کے کہاں ہم لائق اور کہاں ہم قابل؟ 
موصوف کا دل رکھنے اور ان کی آرزو پوری کرنے کے لیے چند سطریں پیش کرنا چاہوں گا۔ تذکرہ اقبالؒ کا ہے ، ارباب نظر حضرات سے گزارش ہے کہ کوتاہیوں کی اصلاح فرمائیے گا۔
میں موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ۔ ’کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں۔‘ یہ علامہ اقبالؒ کی معروف نظم شکوہ کا پہلا مصرعہ ہے جس میں اقبال کی دو باتیں بہت واضح ہیں اوردونوں کا تعلق بلا واسطہ انسان کی خصلتوں سے ہے۔ اور یہاں پہلے کا وجود دوسرے سے مشروط ہے ۔یعنی سود فراموشی ہی زیاں کاری کا باعث ہے۔لفظی معنی دیکھے جائیں تو ’زیاں کار‘ نقصان پہنچانے والے کو کہتے ہیں جبکہ’ سود فراموش ‘ فائدہ کا علم رکھتے ہوے بھولنے والا کو کہا جاتا ہے۔ یہاں میں اس کے اصطلاحی معنی کچھ یوں بیان کروں گا کہ ایک اندھا شخص بغیر لاٹھی کے کہیں جا رہا ہو اور آگے اس کے راستے میں گہرا کنواں آ جائے اور ایک بینا شخص جانتے ہوئے بھی اس کی راہنمائی نہ کرے اور خاموشی سے دیکھتا رہے۔میری نظر میں یہی سود فراموشی ہے اور یہی زیاں کاری بھی۔اب اقبال ؒ کی بات کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ وہ کونسی چیز تھی جس سے اقبالؒ سود فراموشی نہیں چاہتے تھے؟ تو میں یہی کہوں گا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں۔جسکی عکاسی اقبالؒ کچھ یوں کرتے ہیں۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے ناقص ہے کتاب
کہ سیکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
مسلمان غلامی کو اپنا مقدر ٹھہرا چکے تھے۔ مایوسی کے گہرے بادل ان پر ٹھہر چکے تھے۔ ان کی سوچ پست تر ہو کر رہ گئی تھی۔ ایسی حالات میں اقبالؒ جیسا محسن مسلمانوں کے لیے راہبر ثابت ہواجس نے انہیں خوداری کا راستہ دیا۔ 
اقبا لؒ بھی اس عقیدہ پر عمل پیرا تھے کہ جس کی قرآن نے تلقین کی ’’ حق بات مت چھپاؤ‘‘۔ اور حقیقت میں صاحبان حق کا بھی تو یہی طریقہ رہا کہ وہ اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حق بات کی تبلیغ کے لیے مصروف عمل رہے۔ کیونکہ حق بات ہی تو انسان کو گمراہی کے اندھیروں سے دور کرتی ہے اور گمراہی اسی اندھے انسان کی مانند ہے جو آخر کا ر اسے انجام تک پہنچا دیتی ہے ۔اقبال بھی انہیں خاص لوگوں میں سے تھے۔ شکوہ کے مذکورہ مصرعہ میںیہ بات واضح ہے کہ اقبالؒ امت مسلمہ کے لیے گوہر نایاب رکھتے تھے جس سے وہ ہرگزچشم پوشی نہیں چاہتے تھے ۔ جس کو چھپانے سے وہ اعراض کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور جس کے ثمرات وہ امت مسلمہ پر آشکار کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس کا ذکر بارہا کر اپنے کلام میں کر چکے ہیں یعنی ’’ دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ‘‘۔ اور اقبال نے کیا دیکھا؟ اپنے دل کی منظر کشی کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ۔ 
مجھے راز دوعالم دل کا آ ئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
میری نظر میں اقبالؒ نے شکوہ خاکم بدہن حقیقتا امت مسلمہ کی حالت زار پر کیا، ان کی تنقید برائے اصلاح تھی جس کا مقصدقوم کی بیداری تھا وہ قوم جو خواب غفلت میں سو رہی تھی۔ جس کا بر ملا اظہار آپ نے جواب شکوہ میں کیا جیسا کہ
تھے تو آبا ء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟۔۔۔۔
اقبالؒ کا کلام جس کے بارے میں وہ اللہ سے التجاء کرتے ہیں کہ ’’ اے اللہ اگر میں نے قرآن و سنت کے علاوہ کچھ کہا تو روز محشر مجھے رسواء کر دینا‘‘( یہ بات کوئی اقبال جیسا مومن ہی کہہ سکتا ہے) وہ کیسے حق سے جدا ہو سکتا؟۔وہ اپنے اندر ایک حسرت رکھتے تھے وہ ہمارے تابناک ماضی سے ہمارا موازنہ کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں میں آج بھی’ حیدری فقر‘ ،’ دل مرتضی‘ اور’ سوز صدیق‘ جیسی پاکیزہ صفات پیدا ہو سکیں ، ہمارا رشتہ ہمارے اسلاف سے قائم ہو سکے۔ان کی تعلیمات کا ماخذ قرآن اور سنت رسول ﷺ تھا یہی وہ زندہ تعلیمات ہیں جسے انہوں نے اپنا نور بصیرت قرار دیا۔
خدایا آرزو مری یہی ہے
مرا نورِ بصیرے عام کر دے 
میں نے اقبالؒ کا ذکر یہاں اس بھی زیادہ کیا کہ یہ باعث برکت بھی ہے اور ویسے بھی یہ مصرعہ اقبالؒ کے کل کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ میں نے شروع میں لکھا کہ اس میں انسان کی خصلتوں کا ذکر ہے۔ جو اقبالؒ کے ہاں منفی صفات بھی ہیں۔یہ بنیادی خصائل ہیں جو ہمارے ہاں بہت کثیر ہیں یعنی ہم اکثر کسی کی اصلاح کے معاملہ سے گزیز کرتے ہیں اور اسے در خور کرتے ہیں ۔ اگر ایک انسان شروع ہی میں ان پر قابو پا لے تو آگے منزل آ سان ہو جاتی ہے ۔ یہاں اقبالؒ اپنے نفس کے خلاف برملا اعلان جہاد کا عندیہ دیتے دکھائی دے رہے ہیں یعنی کیوں زیاں کار بنوں؟ کیوں سود فراموش رہوں؟ جس پر وہ ثابت قدم بھی رہے۔ یعنی حقیقت میں وہ اپنے اندر ان صفات کی موجودگی کی نفی کر رہے ہیں کہ ان کے ہاں سود فراموشی معیوب تر ہے اور اسی لیے انہوں نے حق گوئی و بے باکی کا راستہ اختیار کیااور انہوں نے حق اور باطل میں ایک واضح فرق رکھا۔ جسکی بات وہ اس شعر میں کرتے ہیں۔
اپنے بھی خفاء مجھ سے بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی ، کہہ نہ سکا قند
میرا خیال ہے کہ اسی پر اکتفا ء کرتا ہوں کہ بات اتنی ہی اچھی جتنی دل میں اتر جائے۔ مزید اس کی جتنی بھی وضاحت کی جائے کم ہے کہ یہ اپنے اندر ایک ہمہ گیر فلسفہ رکھتا ہے کہ ہر اچھائی کے پیچھے یہی فلسفہ ہے۔ اور اچھائی باہم محبت و امن ہی کی علامت ہے ۔ جو بھائی چارے کی بات کرتی ہے ۔ اقبالؒ کی ساری شاعری بھی اس مصرعہ ہی کی ذیلی تشریح ہے اور یہی ان کے شاعری کے مقصد کو بھی واضح کرتا ہے ۔ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے وہ تمام پیغام پہنچا دیا جو انسان کی تربیت و راہنمائی کے لیے سود مند ثابت ہوا جسے وہ اگر نہ کہتے تو شاید وہ اپنی نظر میں سود فراموش اور زیاں کار ٹھہرتے۔اللہ اقبالؒ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
پورا شعر ملاحظہ فرمایے
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کرو ں محو غم دوش رہوں
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...